سرِ نیزہ جو روشن ہو گیا ہے رسولِ پاک کے گھر کا دیا ہے اندھیری رات کی پوروں میں جگنو بہ اندازِ شرر جل بجھ رہا ہے بچھی تھی سیج تیروں کی، اُسی پر شہِ معصوم پیاسا سو گیا ہے ترے گھر میں جگہ کیا پائے دنیا ترا خیمہ نہیں، شہرِ وفا ہے اعزادارو! یہاں چلتے ہیں آنسو خریدارو! یہ بازارِ رضا ہے ہوائیں سر پٹخ کر رہ گئی ہیں چراغِ استقامت جل رہا ہے نجیب! اک شخص کی تشنہ لبی سے ابھی تک نم ورق تاریخ کا ہے (نجیب احمد)
Related posts
-
آفتاب لکھنوی
کافر تھا میں ضرور مگر ان کے عشق میں منٹوں میں کیا سے کیا مرا ایمان... -
ڈاکٹر مظفر حنفی ۔۔۔ رباعیات
مرنا ہے تو بے موت نہ مرنا بابا دم سادھ کے اس پُل سے گزرنا بابا... -
اے ڈی اظہر ۔۔۔ وزیر کی دوسری شادی
کراچی میں کمر باندھے ہوئے سب یار بیٹھے ہیں بیاہے جا چکے، اک بار پھر تیار...